بدھ، 24 اکتوبر، 2012

نظر نظر کی بات ہے یہ





صبح  صبح  جب آنکھ کھلی 
میں اٹھ کر صبح  سے ملی 
صبح  نے کہا تو کتنی ہے حسین 
یہ حسن تیرا قدرت ہے    
تیرے حسن کی یہی فطرت ہے 
نظر نظر کی بات ہے یہ 
جسنے پیار کیا ان صبحوں  سے 
انھیں  ہی سوغات ملی قدرت کی 
سو پیارے جو ہارے ہوں خود سے 
ایکبار لڑیں وہ  اپنی سستی  سے 
دیکھیں ان روشن صبحوں کو 
تیزرفتار صبا کے جھوںکوں  کو 
مست  خورشید کی کرنوں کو 
ہنستے کھلتے ان غنچوں کو 
چست چاخ  چوبند ان پرندوں کو 
یہ سارے یہ ہی کہتے ہیں 
یہ مست عشق مولا رہتے ہیں 
وہی مستی انکی ہستی ہے 
یہ  ان کی رگ رگ میں  بستی ہے   

جمعہ، 21 ستمبر، 2012

ہم انسان ہیں





دیکھیں آج کی صبح  ہمارے لئے  کیا  پیغام  لائی ہے 
آج کی  یہ صبح  ہمارے لئے کونسا انعام لائی ہے 
اور ہم نے اس  صبح  کے استقبال  کی خاطر  خود کو کیسے سجایا ہے 
اس رنگ  بدلتی دنیا  سے  اپنے رنگوں کو کیسے بچایا ہے  
دیکھو ا اس دنیا نے کیسے اپنا جال بچھایا  ہے 
پر ہم کو بس اتنا   سمجھنا ہے  کے یہ بس ایک پل کی  مایا ہے 
جو ساتھ چلیگا وہ  بس اپنا سایا ہے 
کے یہ  اس بات کا ثبوت  ہے کے  ہم  انسان ہیں 
اور ہمیں انسان ہونا ہی راس آیا ہے 

جمعرات، 13 ستمبر، 2012

مناؤ شکر تم رب کا ..........




اے  صبح   تو اس قدر  نہ شور کر 
میں سن رہی  ہوں تجھے تو مجھے نہ بور کر 
یہ آج کے جواں ہیں 
انہیں  اپنے دن رات سے شکایت  ہے 
کے یہ رات کیوں نہیں آتی، یہ دن کیوں نہیں جاتا 
ان کے آنے جانے  میں یہ خواب سے لمحے 
وقت اپنا نہیں پاتے 
یہ بے وقت گزر ہی جاتے ہیں 
  سو انکو اکثر صبحوں  سے  یہی  شکاایت  ہے 
کے یہ سورج آخر نکلتا ہی کیوں ہے 
یہ شام کیوں ڈھلتی ہے 
یہ رات ٹہر کیوں نہیں جاتی 
یہ نیند کیوں آتی ہے 
٢٤  گھنٹوں کی بیداری یہ دل چاہے 
مگر ان ٢٤ گھنٹوں میں انھیں لمحے بھر کی فرست  نہیں ہے   
کے دو گھڑی سنوار لیں  خود کو 
اس صبح  کے قابل نکھار لیں خود کو 
گر یہ  صبحیں  نہ ہوتیں، گر یہ رات نہ جاتی 
ہم بھی نہیں ہوتے، ہماری ہستی پہچانی نہیں جاتی 
مناؤ  شکر تم رب کا 
شکر ادا کرو ان سب کا 
گر یہ نیامتیں زندگی نہ ہوتیں 
پھر یہ زندگی ،زندگی نہ ہوتی 

بدھ، 29 اگست، 2012

جب دل میرا اسکا نام لے





آ  اے  میری صبح 
تجھے دیکھوں آج میں  ذرا غور  سے 
کئی  دنوں سے زندگی نے 
ملنے نہ دیا تجھ سے مجھے 
چل آج ملوں پھر تجھے 
کے تو ہی میرا پیغام ہے 
کے تو ہی بندے پر رب کا انعام  ہے 
تیری کرن کرن نور ہے 
 تو اذانوں کے لئے  مشہور ہے 
تو بلاتی ہے سب کو روز 
تو ملاتی ہے رب روز روز 
تیرے اجالوں میں  رب کی ہیں نشانیاں 
تجھ سے شروع   سب کی کہانیاں 
آ آج میں  پھر تجھے پڑھوں 
آج  پھر  میں کچھ اور آگے  بڑھوں 
کے دست میرا پھر وہ  تھام لے 
جب دل میرا اسکا نام لے 
پل پل میرا سلام لے

جمعہ، 24 اگست، 2012

سویرا یہ ہے کہ رہا





آج پھر ایک صبح  ملی ہے دھلی دھلی کھلی کھلی
کیوں نہ اس صبح خود کو سنوار دون 
اس میں شامل ہو کر کیوں نہ اس کو بھی نکھار دون 
کے میرا سویرا  یہ ہے کہ رہا 
ان اجالوں  میں آ  تو جھوم   جا 
وہ  فریشتہ  جو آیا ہے در  پر تیرے 
خدا کی رحمت  کا ثبوت  ہے 
تو ادا کر خدا کا شکریہ 
کے اسنے  اپنے  نور کا پیام بھیجا  ہے تجھے 
فرشتوں کا سلام بھیجا ہے تجھے 
تو خوشی سے اپنا سر جھکا 
تو شکر اسکا کر ادا 

بدھ، 22 اگست، 2012

کاروان کو بڑھنا تو ہے





کی  دنوں سے کوئی  صبح  یہاں سے گزری نہیں ہے 
چلو آج میں اس رکی  صبح کو  یہاں سے  گزاروں 
کے کاروان کو بڑھنا تو ہے ہی 
یہ جو ٹہر گیا تو زندگی  کا کوئی مطلب نہیں ہے 
میں آج  باانٹوں  چلو آج اپنے دل کے ٹکڑے  
کے یہی آج میرے دامن میں  بچے  ہیں 
یہی آج تیرے قدموں میں بچھے ہیں  
چلو کچھ تو حاصل ہوا ہے ان گزری  صبحوں  سے 
گلوں سے کوئی زخم چھیل گیا ہے 
خاروں سا کوئی پھر مل گیا ہے 
یہ سب ہے انعام اس کا 
   سمجھو  اسے تم  نعمت 
کے کچھ بھی خالی-از- سبب نہیں ہے 
اب یہ ہے باری تمھاری 
تم گلہ  کرو کے سر جھکاؤ  

جمعہ، 25 مئی، 2012

اسرارالحق




تیرے بندے کا سفر تیرے ہی اختیار  میں ہے
تو چاہے تو  وہ  پل میں  یہ جہاں، آسمان تک پار کرلے 
تو چاہے تو خود اپنی ہستی سے آنکھیں چار کرلے 
تو نے اپنے بندوں کی زبان سے اپنے پیغام  دیے  
تو نے اپنے بندوں کو ایسے انعام  دیے 
بندہ گر ذرا سا غور کرے 
 اسرارالحق  کا آیینہ بن جائے 
ایسے ایسے اسرار سے پردہ اٹھے 
کے آنکھیں، دل . ذہین  خیرہ  ہوجاییں 
بس  محبّت  شرت  ہے 
اسے سنو اپنے دل کی گہرائییوں  میں
  اسے پاؤ اپنے نہال-خانوں میں 
اسے سمجھو اپنے شاہ رگ کے پیمانوں  میں 
وہ  کہاں نہیں ہے
  وہ وہیں گونجتا ہے جہاں خاموشی ہے 
وہ  اسے سوچتا ہے جہاں بے بسی ہے
وہ اسے چاہتا ہے جہاں بے خودی ہے  
یارب تیری قدرت کے کھیل  انوکھے  ہیں

منگل، 15 مئی، 2012

نیند





کافی دنوں بعد پھر جاگی ہوں نیند سے 
نیند دو طرح کی ہوتی ہے 
ایک رات کو آرام دینے والی 
دوسری غفلت کی بے  سکوں کرنے والی 
سو دونوں نے مل کر بشر کا کام تمام کیا 
 میں نے اس دوران یہ دیکھا 
کے  ان دو نیندوں کو اڑانے والی ایک نیند اور ہے 
ابدی نیند 
اسے یاد رکھنا ہر مرض  کی دوا  ہے 
وہیں  راز عدم کا چھپا ہے 
وہی  اپنی  بقا ہے 
 

پیر، 30 اپریل، 2012

اسکی باتوں میں تھا خدا





آج کی صبح ایک شخص  ہم میں  شامل نہیں ہے
کل تلک جو اس جم-ے -غفیر میں موجود تھا
آج وہ اپنے اصلی سفر کی  طرف بڑھ چکا 
کل اسکی باتوں میں  تھا خدا
آج  وہ خود  خدا سے  جا ملا
بس یہی ہے اس زیست کا حقیقی سلسلہ
آنی جانی ہے یہ کہانی
کسی نے کیوں نہ رب کی مانی
اپنی اصلیت کیوں نہ جانی
ورنہ آج یہ آنسو زیاں نہ ہوتے
مجھے یاد ہے وہ  پہلا قدم
جو اسکے لفظوں سےشروع  ہوا
مطلب راستوں کا جب ملا
جب بھید اپنے دل کا مجھ پر خلا 
کہیں کوئ بوند فہم کی اسکی طرف سے بھی آ ملی
کوئی روشنی کی ایک افضل کرن  کا بانی وہ  بھی رہا
فانی ہی سہی پر کچھ تووہ  بھی کر گیا
جب تلک میں رہونگی
مجھ میں  رہیگا وہ  بھی کہیں
جسنے پہچان کرائی راستوں کی مجھے
میرے رہبر کا وہ  تھا ایک سراغ
جسے سب نے سمجھا چندہ کا داغ
نہیں نہیں...وہ  تو تھا نمرود کی آگ
جہاں ملی تھی معرفت رب کی ابراہیم کو
اسی طرح ملا تھا بہتوں کو رب کا سراغ

جمعہ، 6 اپریل، 2012

حقیقتوں کا نور

 
 

آج کی یہ صبح مزید روشن لگ رہی ہے 
کہیں یہ سچ کا سویرا تو نہیں
کیا یہ حقیقتوں کا نور ہے
آج کی یہ خوشی میں نے  تیرے نام کی
یہ حکمت تیری نکلی کام کی
مجھے خوشی ہے کے تجھے خوشی ملی ہے
سماعتوں کو تیری جس کا انتظار تھا
 جانتی ہوں وہ یہی اقرار تھا
 حقیقت میٹھی ہوتی ہے  
کیوں کی اس میں  خدا کا جلوہ ہے
کیوں کی اس میں رب کی چاہت ہے
کیوں کی یہی حق ے محبّت  ہے


منگل، 13 مارچ، 2012

کر کرم کروا کرم




پھر ایک صبح کئی دنوں کے بعد
اپنے سنگ سکوں لائی ہے
یہ سکوں متضاد خیالات کو راہ مل جانے کا ہے
یہ سکوں پراگندگی سے نکل آنے کا ہے
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کے
انسان اپنے کرم کا مختار ہے
اسے خود اپنی راہیں تعیین کرنی ہیں
اسے خود اپنا ذہن صاف کرنا ہوتا ہے
اسے خود چننا ہوتا ہے
سہی اور غلط   کے درمیان
چھپا ہوا اصل راستہ
منزلوں کی تلاش کچھ اور ہے
راہ مل جائے یہی بہت ہے
تو آؤ چلو پہلے خود کو بنایں انسان ہم
پھر دوسروں کو خود سا بنایں ہم
کے ہم انسان سبھی ہیں ایک سے
مگر یہ سوچنے کی  ہے فرست کیسے
مطلب یہی
کر کرم کروا کرم
رکھ انسان ہونے کا بھرم 

ہفتہ، 18 فروری، 2012

تیری چاہت کیا ہے




آج پھر ایک صبح ملی ہے ہمکو 
آج کی صبح ہمیں بھی ہوش آجاے
ان سن حسوں میں بھی وہ بول اٹھے
دیکھ ہوش کے ناخن لے اب تو
یہ خودفراموشی چھوڈ دے اب تو
گر میں چاہوں تجھے پل میں میں مل جاوں
پر مجھے یہ دیکھنا ہے 
کے تیری چاہت کیا ہے
گر مجھ سے محبت  ہے تجھ کو
اپنی عبادت میں مجھ سے مل
مجھ سے ہی تیری محبت قایم ہے
گر تو غیر کی جانب دیکھےگا
  تو غیر ہی مانا جاےگا
  پھر نہ غیر رہیگا تیرا
نہ اپنوں کا تو ہو پایگا
تیری پہچان فقط ہے مجھ سے
تو صرف مجھ سے ہی جانا جاےگا
تیری تقلیق کا مقصد صرف اتنا ہے
تجھے ہر حال میں مجھ کو پانا ہے
تو چاہے جس راہ پر بھی قدم رکھے
تجھے بس میری راہوں میں  آنا ہے      

منگل، 14 فروری، 2012

تیری روپہلی کرنوں سے






آ اے میری پیاری صبح
تیری روپہلی کرنوں سے
میں  اپنا اجالا بھی کرلوں
آ اس اجلے لمحے کو
میں  اپنی روح میں  بھر لوں
ایک تو ہے جوخود کو بانٹے ہے
اور ایک ہم ہیں خود کو سمیٹے بیٹھے ہیں
گر ہر دل ایک لمحہ اپنا بانٹیگا
شاید ہر دل میں  اجالا کردیگا
کوئی امید کا ہو لمحہ
کہیں کرم کا ہو کوئی لمحہ
کہیں عمل کی کوئی ساعت  ہو
بوند بوند خوشی کی مل کر
غم کے ماروں کو شاداں کردے
ہم انسانوں کو انسان کردے
      

منگل، 7 فروری، 2012

وقفہ حیات





پھر ایک مضمحل سی صبح
یہ  کہ  رہی ہے ہم سے
دیکھ یہی تیرا زوال ہے
اسی لئے تیرا یہ حال ہے
کس لئے اور کیوں یہ ملال ہے
یہ کیفیت تو ہر ذی روح کو ملی ہوگی
کے وقت نے سب پر اپنی ایک سی چھاپ  چھوڑی ہے
یہ بھی ایک رنگ ہے زندگی کا
زندگی اپنے عنوان بدلتی رہتی ہے
رفتار  بھی وقت کے حساب سے ملتی ہے
کبھی تیز، کبھی سست، کبھی چست تو کبھی مست
یہ طے شدہ سفر ہے
مسافر کا کام چلتے جانا ہے
اسکی مرضی سے آنا ہے، اسکی مرضی سے جانا ہے
یہ وقفہ حیات  آپکے کرم طے کرتا ہے
بس اور کچھ نہیں
فیصلہ رب کے ہاتھ 
کس نے بخوبی اپنا کردار نبھایا
کون کب کس کے کام آیا
دوست تو دوست کے کام آتے ہی ہیں
کسی  نے دشمن کا بھی ساتھ نبھایا

پیر، 6 فروری، 2012

آج پھر خدا کو میں پکار لوں



آ  اے میری پیاری صبح
تجھے ذرا نہار لوں
کئی دنوں کے بعد جاگی  ہوں نیند سے
آج پھر  خدا کو  میں پکار لوں
شاید ہمیشہ کی ترھا معاف کردے مجھے
 ہوسکتا ہے وہ اپنی  محبّت کو میری محبّت کردے
ہوسکتا ہے، اسکی رحمت سے کچھ بھی بعید نہیں
وو تو غفور ہے رحیم ہے کریم ہے
اور ہم خود سے تک بےخبر ہیں
وہ  نور ہے اور ہم مغرور ہیں
وہ  عیاں ہے ہرطرف  اور ہم مفرور ہیں
اور ہم ہیں کے خود سے بھی دور ہیں
وہ  سویروں  میں آواز دیتا ہے
وہ مومنوں کی جبیں پردمکتا ہے
وہ معصوموں کی مسکانوں میں ملتا ہے
ذرا سر کو جھکاؤ تو خود اپنے گریبانوں میں ملتا ہے
بس صبح کی پہلی کرن سے نظر ملا کر دیکھ
وہ  کرن تجھے خود میں  مدغم کرتے ہوے کہےگی
میں  رب سے جدا نہیں
تو مجھ سے جدا نہیں

پیر، 30 جنوری، 2012

ایک نیا آغاز




آج کی خوشگوار صبح بھی مضمحل سی لگ رہی ہے
 کیوں کے دل جو محسوس کرتا ہے  اسی  میں   ڈھل جاتا ہے
زندگی نے پھر ایک درس دیا میں 
زندگی نے پھر سے حیران کیا
ایسا بھی ہوسکتا ہے
جو آپ نہیں چاہتے
جو آپ نے نہیں سوچا
 ضروری نہیں کے زندگی ہمیشہ یکرنگ ہی ہو
آنکھوں کو سارے رنگ نصیب ہوتے ہیں
ان رنگوں کا امتیاز تو حالات کرتے ہیں
ان رنگوں کو دستیاب بھی حالات ہی کرتے ہیں
یہی قسمت، تقدیر کہلاتی ہے
کاتب کا لکھا پورا ہو کر رہتا ہے
انسان کو جو ملنا ہو مِل کر ہی رہتا ہے
انہی سے گزر کر ہی تو انسان کی تکمیل ہوتی ہے
یہی فہم-و-ادراک کی دلیل ہوتی ہے
انہی سے انسانیت کی تشکیل ہوتی ہے
آج کی یہ صبح پھر ایک نیا آغاز ہے 

جمعرات، 26 جنوری، 2012

گئی صبحیں



کافی دن ہوگئے آپ سب سے ملے
 گئی صبحیں اپنی نہ تھیں
کشمکش ذہنی ہو تو دل بھی خاموش رہتا ہے
جو اسے کہنا ہوتا ہے نہیں کہتا ہے
احساس بےبسی کا جان لیوا تھا
کاش کوئی لمحہ اختیار کا بھی ملتا
کسی درد کی ہم بھی دوا بنتے
کہیں کوئی بوجھ اتر پاتا
یاخدایا تو حاکم ہے ہم محکوم
کسی کی قسمت ہم کو نہیں معلوم
بس اتنی سی التجا ہے
کوئی دعا خالی نہ جائے
پھر سے وہی  سکوں  لوٹ آے
ہر دل تیرے کرم سے راحت پاے

ہفتہ، 7 جنوری، 2012

یہ اپنی صبحیں



اسلام وعلیکم دوستو
هم! پھر سے کچھ صبحیں مس ہوگیئں دیکھئے
کیا کیا جائے
کمبخت سوچوں نے ہی تو ڈبویا ہمکو ورنہ
ہم بھی انسان تھے کام کے
کبھی صبح غایب
تو کبھی رات ندارد
آخر انہی سوچوں تلے دب کے رہ گئے ہمارے شب- و- روز
چلو جب تلک سانس تب تلک آس
کل پھر صبح آییگی
کوئی نیا پیغام سناےگی
ہماری سن حسسوں کو جگاےگی
خود سے کئے سارے وعدے یاد دلاےگی
زندگی کے اصلی رنگ دکھاےگی
ہمیں اپنےخالق سے ملاےگی
 

اتوار، 1 جنوری، 2012

اس سال پھر کرم ہوجاے



 

یہ صبح بھینی بھینی  مہک لائی ہے
یہ سوندھی سوندھی خوشبو دل کو لبھا رہی ہے
ایک امید پھر سے جاگی ہے
جب کالی سیاہ رات کا بھی سویرا ہے
پھر کیوں نہ کل کا سورج میرا ہے
یہ سال ہم کو کیا کیا دے گیا
یہ سال ہم سے کیا کیا لے گیا
اب مڈ کر دیکھیں بھی تو کیا
سارے منظر دھندلے ہیں
جو ٹھر   گئے  وہ خواب نشیلے ہیں
 اس  سال کی ہر سوچ  نئی 
پھر جاگے ہیں ارمان کئی
اس سال پھر کرم ہوجاے
ہر دل پر تو چھا جائے
ایک تیری مہر کے دم پر ہی
بندہ اپنی راہ پا جائے