صبح صبح جب آنکھ کھلی
میں اٹھ کر صبح سے ملی
صبح نے کہا تو کتنی ہے حسین
یہ حسن تیرا قدرت ہے
تیرے حسن کی یہی فطرت ہے
نظر نظر کی بات ہے یہ
جسنے پیار کیا ان صبحوں سے
انھیں ہی سوغات ملی قدرت کی
سو پیارے جو ہارے ہوں خود سے
ایکبار لڑیں وہ اپنی سستی سے
دیکھیں ان روشن صبحوں کو
تیزرفتار صبا کے جھوںکوں کو
مست خورشید کی کرنوں کو
ہنستے کھلتے ان غنچوں کو
چست چاخ چوبند ان پرندوں کو
یہ سارے یہ ہی کہتے ہیں
یہ مست عشق مولا رہتے ہیں
وہی مستی انکی ہستی ہے
یہ ان کی رگ رگ میں بستی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں