ہفتہ، 18 فروری، 2012

تیری چاہت کیا ہے




آج پھر ایک صبح ملی ہے ہمکو 
آج کی صبح ہمیں بھی ہوش آجاے
ان سن حسوں میں بھی وہ بول اٹھے
دیکھ ہوش کے ناخن لے اب تو
یہ خودفراموشی چھوڈ دے اب تو
گر میں چاہوں تجھے پل میں میں مل جاوں
پر مجھے یہ دیکھنا ہے 
کے تیری چاہت کیا ہے
گر مجھ سے محبت  ہے تجھ کو
اپنی عبادت میں مجھ سے مل
مجھ سے ہی تیری محبت قایم ہے
گر تو غیر کی جانب دیکھےگا
  تو غیر ہی مانا جاےگا
  پھر نہ غیر رہیگا تیرا
نہ اپنوں کا تو ہو پایگا
تیری پہچان فقط ہے مجھ سے
تو صرف مجھ سے ہی جانا جاےگا
تیری تقلیق کا مقصد صرف اتنا ہے
تجھے ہر حال میں مجھ کو پانا ہے
تو چاہے جس راہ پر بھی قدم رکھے
تجھے بس میری راہوں میں  آنا ہے      

منگل، 14 فروری، 2012

تیری روپہلی کرنوں سے






آ اے میری پیاری صبح
تیری روپہلی کرنوں سے
میں  اپنا اجالا بھی کرلوں
آ اس اجلے لمحے کو
میں  اپنی روح میں  بھر لوں
ایک تو ہے جوخود کو بانٹے ہے
اور ایک ہم ہیں خود کو سمیٹے بیٹھے ہیں
گر ہر دل ایک لمحہ اپنا بانٹیگا
شاید ہر دل میں  اجالا کردیگا
کوئی امید کا ہو لمحہ
کہیں کرم کا ہو کوئی لمحہ
کہیں عمل کی کوئی ساعت  ہو
بوند بوند خوشی کی مل کر
غم کے ماروں کو شاداں کردے
ہم انسانوں کو انسان کردے
      

منگل، 7 فروری، 2012

وقفہ حیات





پھر ایک مضمحل سی صبح
یہ  کہ  رہی ہے ہم سے
دیکھ یہی تیرا زوال ہے
اسی لئے تیرا یہ حال ہے
کس لئے اور کیوں یہ ملال ہے
یہ کیفیت تو ہر ذی روح کو ملی ہوگی
کے وقت نے سب پر اپنی ایک سی چھاپ  چھوڑی ہے
یہ بھی ایک رنگ ہے زندگی کا
زندگی اپنے عنوان بدلتی رہتی ہے
رفتار  بھی وقت کے حساب سے ملتی ہے
کبھی تیز، کبھی سست، کبھی چست تو کبھی مست
یہ طے شدہ سفر ہے
مسافر کا کام چلتے جانا ہے
اسکی مرضی سے آنا ہے، اسکی مرضی سے جانا ہے
یہ وقفہ حیات  آپکے کرم طے کرتا ہے
بس اور کچھ نہیں
فیصلہ رب کے ہاتھ 
کس نے بخوبی اپنا کردار نبھایا
کون کب کس کے کام آیا
دوست تو دوست کے کام آتے ہی ہیں
کسی  نے دشمن کا بھی ساتھ نبھایا

پیر، 6 فروری، 2012

آج پھر خدا کو میں پکار لوں



آ  اے میری پیاری صبح
تجھے ذرا نہار لوں
کئی دنوں کے بعد جاگی  ہوں نیند سے
آج پھر  خدا کو  میں پکار لوں
شاید ہمیشہ کی ترھا معاف کردے مجھے
 ہوسکتا ہے وہ اپنی  محبّت کو میری محبّت کردے
ہوسکتا ہے، اسکی رحمت سے کچھ بھی بعید نہیں
وو تو غفور ہے رحیم ہے کریم ہے
اور ہم خود سے تک بےخبر ہیں
وہ  نور ہے اور ہم مغرور ہیں
وہ  عیاں ہے ہرطرف  اور ہم مفرور ہیں
اور ہم ہیں کے خود سے بھی دور ہیں
وہ  سویروں  میں آواز دیتا ہے
وہ مومنوں کی جبیں پردمکتا ہے
وہ معصوموں کی مسکانوں میں ملتا ہے
ذرا سر کو جھکاؤ تو خود اپنے گریبانوں میں ملتا ہے
بس صبح کی پہلی کرن سے نظر ملا کر دیکھ
وہ  کرن تجھے خود میں  مدغم کرتے ہوے کہےگی
میں  رب سے جدا نہیں
تو مجھ سے جدا نہیں