یہ روشنی کل کے اندھیرے کا پھل ہے
یہ روشنی آج کی پھر ایک پہل ہے
کل جوتکلیف دہ تھا
آج اسکی حقیقت سمجھاتی ہے
کے کچھ بھی بلا ارادہ نہیں ہوتا
سب کچھ طےشدہ ہوتا ہے
کاتب نے مقدر لکھ رکھا ہے
اور بندہ اپنے نفس کی کہانی لکھنا چاہتا ہے
وو کہانی جو انجام نہیں چاہتی
بس بےخبری کا لطف اٹھانا چاہتی ہے
مگر داتا کو یہ منظور نہیں
وو اپنی تخلیق کو بھٹکنے کیسے دے سکتا ہے
وقت اور حالات کی کسوٹی پیش ہوتی ہے
اور احساسات کا سفر درپیش ہوتا ہے
یہیں وو لمحہ راہ تک رہا ہوتا ہے
جہاں بندہ اپنے خالق کا دیدارکر سکتا ہے
وو جلوہ جو ازل سے بیتاب ہے
عیاں ہونے کو
نہاں ہونے کو
پنہاں بھی ہے
اور اوجھل بھی
بس ذرا سی غور- و- فکر درکار ہوتی ہے
کے بندہ اسکی پہچان کرلے
اسکا قرب پالے
اور اپنے ہونے پہ نازاں ہوجاے
اسے اس بات کا احساس ہوجاے
کے گر تو نہیں تو میں بھی نہیں
گر میں نہیں تو کچھ بھی نہیں...................