آج پھرایک اچھنبا ہے
آج کی صبح پھر ایک حیرت ہے
آج کی صبح پھر ایک حسرت ہے
کاش کل کا تکلیفدہ منظر آج اوجھل ہوسکتا
کل ایک حقیقت تھا
آج کی یہ حقیقت ہے
جو بیت گیا وو بھی سچ تھا
جو بیت رہا ہے وو بھی سچ ہے
ایک پرندہ اپنی حدوں سے جب گزرا
آزادی کا مطلب بدل گیا
اپنے جھنڈ سے جب چھوٹا
اسکو صیاد نے کتنا لوٹا
اب نہ پر تھے نہ پرواز
سارے احساس چیخ اٹھے بے آواز
ہاے کاش میرے گمان سارے ہوتے جھوٹے
میرا چمن ،چمن والے سب چھوٹے
اب کیا ہوسکتا تھا
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
اب پچھتاوا ہی بن سکتا ہے اسکا واحد میت
ایک اور صبح پھرآییگی
تجھے تجھ سے ملوایگی
اب بھی وقت ہے جان لے تو
اپنے اپنوں کی الفت پہچان لے تو
پھر دیکھ تو شبنم سا دھل جاےگا
پھر ایک موقع روشن ہونے کا پایگا