بدھ، 28 دسمبر، 2011

پرواز

آج پھرایک اچھنبا ہے
آج کی صبح پھر ایک حیرت ہے
آج کی صبح پھر ایک حسرت ہے
کاش کل کا تکلیفدہ منظر آج اوجھل ہوسکتا
کل ایک حقیقت تھا
آج کی یہ حقیقت ہے
جو بیت گیا وو بھی سچ تھا
جو بیت رہا ہے وو بھی سچ ہے
ایک پرندہ اپنی حدوں سے جب گزرا
آزادی کا مطلب بدل گیا
اپنے جھنڈ سے جب چھوٹا
اسکو صیاد نے کتنا لوٹا
اب نہ پر تھے نہ پرواز
سارے احساس چیخ اٹھے بے آواز
ہاے کاش میرے گمان سارے ہوتے جھوٹے
میرا چمن ،چمن والے سب چھوٹے
 اب کیا ہوسکتا تھا
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
اب پچھتاوا ہی  بن سکتا ہے اسکا واحد میت
ایک اور صبح پھرآییگی 
تجھے تجھ سے ملوایگی
اب بھی وقت ہے جان لے تو
اپنے اپنوں کی الفت پہچان لے تو
پھر دیکھ تو شبنم سا دھل جاےگا
پھر ایک موقع روشن ہونے کا پایگا

منگل، 27 دسمبر، 2011

حق زندگی کا


آؤ بتاؤں میں اپنی صبحوں کی کہانی
مجھ کو سنو ان صبحوں کی زبانی
اکثر شب بھر یہی سوچ رہا کرتی تھی
کیا ہوگا گر یہ میری آخری شب ہو
پھر جاگنا جانے کب ہو
کیا کل میری صبح آییگی
پھر حق زندگی کا سمجھا یگی
میرے ہونے کا سبب بتلاےگی
کل جو روک لگی تھی سوچوں پر
کل کو روک رکھا تھا آنے والے کل پر
کیا وہ سارے کرم کروایگی
کیا کوئی صبح ایسی بھی آییگی  

ہفتہ، 24 دسمبر، 2011

آج کا سبق



اے میری پیاری صبح
میں تیری شکرگزار ہوں
کے مجھے تجھ سے آج وو لمحہ ملا
جہاں مجھ پر ایک اور راز کھلا
ایک درد شبنم تھا
ایک غم بنا انگارہ
کب سے خود پر رویا کرتا تھا بےچارہ
یہ لوگ آخر اپنوں سے چاہتے ہیں کیا
ہر ذات خود میں ڈوبی ہے
ہر بات غرض ہے یہی انکی خوبی ہے
اپنے سوا سب کو دیوانہ یہ سمجھے ہیں
دیوانوں کو خبر ہے اس عیاری کی
شاطر دل  کہاں اوروں کی پروا کرتے ہیں
یہ دیکھ دل بے-آواز رویا تھا جب جب
ایک لمحہ اس سے بول اٹھا
خدا نے ہر شے بنائی انسان کی خاطر
پھر تو یہ کیوں نہیں سمجھا اے انسان
تجھ کو بھی بنایا انسان کے ہی لئے
ہر شے ضرورت کی حامل ہے
اور تو بھی ضرورت میں شامل ہے 

جمعرات، 22 دسمبر، 2011

اختیار



یہ  جو صبحیں اکثر مسس ہوجایا کرتی ہیں
اب ایسا بھی نہیں کے صبحیں یہ آئ نہ ہوں زندگی میں
آییں بھی اور ہم انسے ملے بھی
پر ہم انسے آپکو ملا نہ سکے
کے یہ صبحیں اپنی آپکی اسلئے نہ ہوسکیں
کے ہم ان صبحوں سے کھل کے نہ مل سکے
اپنی عدم فرصتی کی وجہ سے
سو اسکی کثر آج پوری کرنے کا ارادہ لے کر حاضر ہیں
آج یہ صبح دیکھئے ہم سے کیا کہتی ہے
اپنی پریشانیوں کو بھول جا
ذرا ہماری خوشدلی سے نظر ملا
پھر اپنے غم سارے بھول جا
ویسے بھی غم کاہے کا ہے
اختیار خود پر تو ہے الحمدلللہ
پھر حکومت بھی اپنی،اختیار بھی اپنا
حکومت نفس پر،اختیار  خود پر
اب دیکھنا ذرا، سکون کی سب سے بہتر یہی دوا
تو زمانے کی بےرخی بھول جا
اور اپنی نیت کو آزما
حقیقتوں کے قریب جا
اور پالے راز زندگی کا


منگل، 20 دسمبر، 2011

صبح صادق


اے صبح تجھے سلام
تجھ سے کلام کرنے والی ہر شے پر آ  لکھ  دوں اپنا نام
کے یہ مجھ سے کتنے بہتر ہیں
کے یہ ہر بےخبر کو خبر دیتے ہیں
جاگو دیوانو سویرا نہیں یہ نوید ہے زندگی کی
یہ بانگ صبح کی  بندگی کی
یہ آج کا پہلا کرم ہے
اگر اب بھی نہ جاگے
ستم در ستم ہے
کوئی درد گر تم کو سونے نہ دے
مضمحل کوئی غم گر اٹھنے نہ دے
سوچو ذرا کی تھی کیا خطا
اے صبح اب تو ہی بتا
فراموش تجھ کو کیا کس نے سدا
کون دنیا میں بس الجھا رہا
یہ الجھن ہے بس اسی کی سزا
آ خود کو کر سپردے  خدا
صبح  صادق کر شکر رب کا  ادا



ہفتہ، 17 دسمبر، 2011

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں


آؤ آج پھر تمھاری صبح ہم بنا دیں
کل کے سروں سے آج کے سر ملا دیں
وہ  ادھورا نغمہ ابھی تک راہ تک رہا ہے
چلو آج تمھارے بول اسکو سکھا دیں
کے گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
جو ساتھ ہوگیا پھر کبھی جاتا نہیں
یہ راہیں تک رہی ہیں کب سے تجھے
اے مسافر ذرا غور کر پڑھ لے مجھے
مجھے نہ موڈ، نہ منزل چاہئے
مجھے بس مسافر تیری لگن چاہئے
تیرے شوق کی ہی کہانی ہوں میں
تو بادل ہے اور پانی ہوں میں
تیرے چاپ سے ہے مقدرمیرا
تیرے سفر کی جوانی ہوں میں


جمعہ، 16 دسمبر، 2011

یہ رنگ


میری صبح کو حسن دینے والے
اس بیرنگ خاکے میں رنگ بھرنے والے
زندگی کا مطلب مجھے سمجھانے والے
میں کیسے یقین کرلوں
   یہ رنگ ہیں بس اترنے والے 
امید کی شمع  پگھل رہی ہے
یقین کے افق پر دھول وڈ   رہی ہے
کہیں یہ شفق رنگ مل رہی ہے
پھر زندگی ہم سے مِل رہی ہے
یہ حسین صبح ہم میں گھل رہی ہے


پیر، 12 دسمبر، 2011

یہی وقت ہے



آج یہ صبح ایک نئی  برسات  کے سنگ آئ ہے
یہ خوبصورت دھلا دھلا سا موسم جیسے سارا میل دلوں کا بہا لے گیا ہو
کل کی کسوٹی سے ایک  سیکھ  نئی لے کر نکلا ہے یہ  آج کا اجالا
ہر آنے والے پل سے انجان یہ لمحہ نوید نو ہے اس صبح کامل کی طرح
تقدیر لکھنے والے کا ایک اشارہ ہے یہ
کے یہی وقت ہے ،اسے ضایع نہ ہونے دو
اس قیمتی وقت کو اپنی تقدیر بنا لو
کاتب کے قلم سے نکلا ہوا لمحہ ہے یہ
اسے اپنے کرم کی داستان کر ڈالو
اپنے ضبط کا امتحاں دے ڈالو
اپنے خلوص کے گل کھلا دو
اپنے الفت کے مہک ہواوون میں بکھیرو
اپنے دلوں کو اور کشادگی بخشو
تاکے وہ  کسی یاسیت میں ڈوبے ہوے لمحے کے لئے کم نہ پڑ جائے
خداوند کی خوشنودی اسکی محبّت کی تبلیغ میں ہے
اور اسکی محبّت سب کے لئے یکساں ہے
بلکل اس صبح کی عنایتوں کی طرح
جو بےدریغ سب کے لئے یکساں نعمتین  لٹاتی  ہے
یہ زندگی ہر ایک کے حصّے آتی ہے

ہفتہ، 10 دسمبر، 2011

یہ شبنمی صبح





یہ شبنمی صبح مخملی چادر اوڑھے
کسی شرمیلی دلہن کی طرح  
اپنے پورے سنگھار  سے آراستہ پیراستہ
   دل کو لبھاتی`
`سارے ناز لٹاتی
خراماں خراماں چلی آرہی ہے
کون ہے جو  پہلی کرن بننا چاہتا ہے
اپنی زندگی کو منور کرنا چاہتا ہے
ان تابانیوں  سے خوشیاں کشید کرنا چاہتا ہے
وہ  دیکھو چلی آرہی ہے صبح
اپنی  باہیں   پسارے تمھارے خیرمقدم کے لئے تیار
تمہیں اپنی تابانیاں بخشنے کو بیقرار
کے آؤ خود کو روشن کرلو
مجھ کو اپنی زندگی میں  بھر لو
میں  ہر روز تم سے ہی ملنے آتی ہوں
تمہارا زندگی کے ہر پہلو سے ناتا جوڈ جاتی ہوں

بدھ، 7 دسمبر، 2011

کارواں وقت کا



`
یہ چپ چپ سی خاموش صبح یہ کہتی ہے
ہر صبح میں کوئی کہانی رہتی ہے
ہر کہانی اس صبح سے یہی کہتی ہے
وقت کا پہیہ گر نہ چلتا
وقت اگر انسان  کو  نہ ملتا
انسان اس صبح سے کیسے ملتا
کارواں وقت کا کیسے چلتا
اندھیروں سے کوئی کیسے نکلتا
ایک کہانی ہے ادھوری شب کی
ایک کہانی پوری ہے صبح کی
بندے کردار نبھالے اپنا
یہ حقیقی ہے سپنا

پیر، 5 دسمبر، 2011

ارادہ





  میرے دوستو ایک اور نئی صبح مبارک ہو
آئے آج اپنے آپ سے ایک وعدہ کریں
آنے والے کل کے لئے بہتر ارادہ کریں
اپنی صبح سے  چند خوشگوار لمحے کسی اور کے بھی نام کریں
کیا پتہ کسی اداسی کو مسکراہٹ مل جائے
کہیں کسی ویرانےمیں  کوئی کلی کھل جائے
کسی کو بخشا ہوا مسکراہٹ کا تحفہ خدا کو بیحد پسند ہے
اور اپنے آپ سے نظر ہٹا کر کسی اور کی طرف نظر کرنا عنایت ہے
گر یہ ادا مقبول ہوگی تو سمجھو تمھاری دعا  قبول ہوگی

جمعرات، 1 دسمبر، 2011

موسم ہیں یہ

یہ سرد صبح کہ رہی ہے
میں جاگ اٹھی ہوں اور دنیا سورہی ہے
موسم ہیں یہ آیینگے جاینگے
ہر موسم میں ہم اپنا عہد نبھاینگے
سنو خود کو کبھی غور سے
نہ گھبراؤ اس خاموش شور سے
یہ وہی ورد ہے عاشقانہ
ناممکن ہے تیرا اسے بھول جانا
وہ  جانتا ہے بندوں کی ادایں
وہ دے رہا ہے دھڑکنوں سے صدایں
تیری سماعتوں کو دعوت ملی ہے
تجھے بندگی کی عادت ملی ہے
وقت صبح ہے خدا بندے کی گفتگو کا
یہی وقت ہے حاصل ے جستجو کا  

بدھ، 30 نومبر، 2011

یہ روشن فضایں





یہ صبح کے حسین دھندلکے
یہ روشن فضایں
یہ ٹھنڈی ٹھنڈی پھروائی
یہ چہچہاتے پرندے
یہ دنیا کی ہلچل
ہر طرف ایک نرم نرم شور
کہ رہا ہے ابھی زندگی ہے
ابھی قایم بندگی ہے
ابھی احساس تازہ ہیں
ارادے ابھی جوان ہیں
امید کا جہاں ہے
ہر سو وہی نہاں ہے
ہر پل ابتدا ہے
ہر پل انتہا ہے
سویرے سویرے ہر ایک کی ایک کہانی شروع ہوتی ہے
زندگی کی مانگ سے زیادہ آدمی کی مانگیں بڑھتی جاتی ہیں
حال ماضی مستقبل ساری جنگیں ایکساتھ کیسے جیتی جایینگی
کہیں تو ٹھہرنا ہوگا
یہ سمجھنا ہوگا
آخر یہ  
دوڑ کس کی ہے
کس کے لئے ہے
آخر کیوں..آخر کیوں...آخر کیوں...
یہ سوال شاید اپنی جانب اس 
دوڑ کو متوجہ کرلے
ذرا روک جا ہے زندگی
ایک موقع انہیں بھی ملے
اپنے سوالوں کے جواب پانے کا
 اپنے باطن سے  مل جانے کا
کیا پتا کوئی دل اپنا سراغ پالے
خود کو نہ کرے خواہشوں کے حوالے
 

پیر، 28 نومبر، 2011

تیری حقیقت



 
یہ سہانی چمکیلی صبح اپنا تمامتر حسن
 تجھ میں  ہی منتقل کرنے آئ ہے
اسکے  عوض میں اسے کچھ نہیں چاہیے
بلکے  تیری حقیقت  کا سبب
اسی کی نمود سے ہے
تو بےسایا رہ جاتا گر دھوپ نہ ملتی
تو سانس نہیں لے پاتا گر ہوا نہ چلتی
تو بھوکا مر جاتا گر بارش نہ ہوتی
تو  بےعلم رہ جاتا گر روشنی نہ ملتی
رات کا پردہ  گر نہ  گرتا
گر صبح کا جلوہ تجھ کو نہ ملتا
پھر  نظام ہستی  کیسے چلتا
کائنات کی سب سے حسین شے ہے تیری ہستی
اور تیری ارتقا کا سبب ہے اسکی کریمی
اور اسکی کریمی دلوں کا جھکنا
دلوں کی تسخیری بے محبّت نہ ہوگی
محبّت ہوگی تو کامل کریگی
کمال ہستی احساس حق کا
جمال ہستی نور-ے- خدا ہے
  

ہفتہ، 26 نومبر، 2011

ایک اور دن




ایک اور دن کی  شروعات
ایک نے احساس کی آمد
ایک نئی سوچ کی ابتدا
اک  نئی   راہ 
ایک نیا موڈ
ایک نیا جوش
ایک نیا حوصلہ
اس ایک صبح کی آمد سے
ہر شے پے جوانی آتی ہے
کل جو سوے ہوے تھے
سارے کل پرزے جگاتی ہے
پھر سے ایک  دوڑ شروع  ہوجاتی ہے
ٹھرے ہوے سارے پل
پل بھر میں انگڑائی لینے لگتے ہیں
یہ صبح اپنی توانائی سے
 زندگی  بدل کر جاتی ہے
  

بدھ، 23 نومبر، 2011

ایک التجا ہے میری




میں  اپنی راتوں کو تیری صبح کردونگی
میں  اپنی آنکھوں میں  تیرے اجالے بھرلونگی
میں تیری خاموشی کو گوارہ کرلونگی  
میں اپنی  ہرشکایت سے کنارہ کرلونگی
بس ایک التجا ہے میری
ہر پل رہوں ہمنشیں تیری
آٹھوں پہر رہوں تیرے پہرے میں
تیری صورت نظر آے میرے چہرے میں
میری  خواہش پر گر تو مسکرا دیگا
میرے سنگ سارا عالم مسکرا  دیگا 

پیر، 21 نومبر، 2011

ایک خیال


 
  ایک  خیال لے کر ملی ہے آج کی صبح  
پھر کوئی سوال لے کر ملی ہے آج کی صبح
یہ لوگوں کو نیند سے جگاتی ہے
یہ لوگوں کو روشنی سے ملاتی ہے
یہ لوگوں کو زندگی کا مطلب سمجھاتی ہے
نیند کیا ہے
ایک خاموشی احسا سات سے عا ری
اور خاموشی موت سے مشابہ
اور یہ شہادت ہے کے ہر صبح 
ہمیں نئی زندگی ملتی ہے
اور صبح کا سجدہ اسی کا شکریہ ادا کرتا ہے

جمعہ، 18 نومبر، 2011

یہ موسم



یہ نئی صبح پھر کوئی پیغام نیا لائی ہے
ہمارے انسان ہونے کا مطلب سمجھانے آئ ہے
یہ موسم دیکھ کیا کہتے ہیں
تبدیلی عمل رہے بہبودی کا
تبدیلی سب کی فلاح کی خاطر آے
تبدیلی انسان کو یہی سمجھاے
ہر موسم کا حاصل بہتر ہے
یہ موسم انسان کا بہتر کل ہے
گر یہ موسم نہ ہوتے
ہم پے بہاریں کیسے آتیں
ہم خزاں  کا مطلب سمجھ نہ پاتے
ہم سردی سے گھبرا کر مر جاتے
ہم   
 پتجھڑسے لڑ جاتے
گرما میں کیسے گرماتے
غرض موسم انسان کا درس اول ہیں
آؤ ہم موسموں میں  گھل جایں
موسموں کی طرح سب کو ہم مل جایں

بدھ، 16 نومبر، 2011

روشن صبح



آ میری روشن صبح  تجھ سے ایک پیام لوں
آ اے میری پیاری صبح تجھ کو ایک پیام دوں
کوئی روز پھولوں سا
کوئی روز گلشن سا
کوئی روز شبنم  سا
کوئی روز بارش سا
تجھ سے کچھ نہ کچھ پاے
تجھ سے مل کرہر کوئی روز دھل جائے
تیری صبح کو مزید روشن کر جائے
  

منگل، 15 نومبر، 2011

دوست کی صدا




آ چل  پیاری صبح  میری
تجھے میری خلوت میں لے چلوں
تیرے سنگ سنگ آج مجھ سے ملوں
میں جان لوں میری صبح  
گزرتی ہے کس حال میں
میری نظر گر دیکھنا چاہے تجھے
اس سے پیشتر دیکھ  لے مجھے
دیکھ میں  گم ہوں ابھی تک
کل کے بھیانک خواب میں
میں نے  دیکھا نہیں  
تو نے کیا لکھا ہے آج کے  باب میں
چھیڑ جائے حسسوں کو
 بھیج دے ایسی ہوا
یا سنا دے پھر مجھے
میرے اسی دوست کی صدا
جسکی ایک نظر
بن جاتی ہے دعا

پیر، 14 نومبر، 2011

ایک نئی کرن





آج کا سورج پھر دیکھو
 ایک نئی کرن لایا ہے
ایک مایوس ذہن میں پھر سے
 ایک نیا سودا سمایا ہے
کوئی کام ادھورا ہے اب تک
ایک بات پوری ہونی ہے ابھی
اس روشن روشن سورج کی
ہر کرن ایک امید نئی
اسی کے سنگ جاگے ہیں
 سوے دل میں ارمان کئی
   داتا کے تانے بانوں میں 
 الجھا الجھا  یہ دل دیوانہ 
اگلے لمحے سے کب واقف ہے
ایک ڈوبتی نبض سے پھوٹا نغمہ
ایک نئی خوشی  کی آمد نے
پھر ایک نئی توانائی بخشی
ابھی کھیل ختم نہیں ہوا
ابھی پردہ نہیں گرا
تیرے عمل کے میدان کا
دائرہ  یہ کہتا ہے
میں  ہر روز بڑھتا جاؤنگا
تیری کسوٹی بن کر آؤنگا
تیری اس نیم جان ہستی کو
ایک نیا رنگ  دے جاؤنگا
تیرے رنگ  میں رنگ جاینگے
جو گل تیرے حصّے میں آینگے 


ہفتہ، 12 نومبر، 2011

یہ خاموش صبح

                                                                         
                                                                                           
یہ خاموش صبح یہ کہتی ہے
تعبیر ہوں میں ایک شب کی
گر کل تیرا رہا ہو نیک عمل
میں آج تیری خوشی ہوں کہتی ہے
میں روز ایک سوچ نئی ہوں تیرے لئے
میں روز ایک امید نئی ہوں تیرے لئے
لے تھام لے مجھ کو مضبوطی سے
ایک نئی منزل کی کڑی  ہوں تیرے لئے
گر تو کل سے کنارہ کرلیگا
  گر آج مجھ سےتو  منھ  موڈیگا
تیرے  ہاتھ کچھ نہ آیگا
خالی ہاتھ جہاں میں آیا تھا
خالی ہاتھ جہاں سے جاےگا
یہ وقت بڑا ہی دانا ہے
اور انسان تو ناداں ہے
تیرے شرف کو پہچان ذرا
کڑیوں سے کڑیوں کو ملا
تیرا مقصد جان ذرا
اس صبح کو تو اپنا بنا
پھر دیکھ سب کچھ ہے تیرا
 

جمعہ، 11 نومبر، 2011

یہ شبنمی صبحیں ،

                                  


یہ شبنمی  صبحیں، یہ سرد ہوا کے جھونکے
کون نہ کھو جائے  ان میں دیوانہ ہوکے
 صبح کی پہلی چہک اسی کی ہوتی ہے
جسکی محبّت خالق سے شدید ہوتی ہے
                   جو صرف اس کی یاد میں رین بسیرا کرتا ہے
جو صرف اسی کی خاطر جیتا مرتا ہے
 محبّت کی صرف ایک قسم  ہی ہوتی ہے
چاہنے والے کی بس ایک قسم ہی ہوتی ہے
یہ وجود تیرے دم سے ہے
یہ دنیا تیرے کرم سے ہے
یہ دھڑکن ہے تیری حمد
یہ سانسیں تیرا کلمہ ہیں
یہ جسم تیرا مقصد ہے
یہ روح تیرا آئینہ
اس دنیا کی ہر شی آنی جانی ہے
یہ جسم اسکا ہر عنصر فانی ہے
گر یہ تیرا ہوجاے تو نشانی ہے
ورنہ یہ بیکار سا ضایع پانی ہے 

جمعرات، 10 نومبر، 2011

یہ نورانی فجر



یہ سفید نورانی  فجر بندے کی دعا کی قبولیت ہے
آج کی اس صبح سے ایک کرن مجھ کو مل جائے
 یا الله مجھے کچھ اور مہلّت مل  جائے
کل کی ہر غفلت کو خواب کردے
میں  پھر سے خود کو روشن کرلوں
میری سانسوں میں تجھ کو بھرلوں
الله الله تیری محبّت میری دھڑکن ہو
تیرے کرم سے ہرا میرا گلشن ہو


منگل، 8 نومبر، 2011

آه ! یہ صبح




آه! یہ  صبح ایک سوال بن کر آئ  ہے
ایک اہم نکتے کی طرف اسنے انگلی اٹھائی ہے
بے زبانی نے سننا سکھایا تھا
اب  زبان ملی ہے تو کہنے پے آئ ہے
وہ  پاس ادب کا کہاں گیا
وہ لحاظ دلوں کا کیا ہوا
اب  یہ سنگ کہاں سے لائی ہے
نہیں نہیں نہ ہوش میں آ اے دیوانے
یہ دنیا تیرے لئے پرائ ہے

جمعہ، 4 نومبر، 2011

خوش آمدید



یہ نئی  صبح آج پھر
ایک نیا موسم لائی ہے
کل کے ہر پژمردہ احساس کا
جواب بن کر آئ ہے
اٹھو خوش آمدید کہو اسے
یہ بس تمھارے واسطے آئ ہے
ہر شے یہ کہتی ہوئی ملی
قدرت نے بشر کے لئے رچائی ہے
رنگ برنگی  یہ کائنات
تمھارے واسطے ہی سجائی ہے
یہ عنایتیں  یہ نعمتیں
ہر ایک کو یکساں ہیں ملیں
یہی انسان کا اصل درس ہے دوستو
کبھی کسی میں تم تفریق نہ کرو

جمعرات، 3 نومبر، 2011

ابتدا


خوشیاں دم بھر کی مہمان ہوتی ہیں
جب تک غم کی پہچان نہیں ہوتی
درد سے رشتہ جب  جڑ  جائے
تب خوشیوں کا مطلب ملتا ہے
آسودگی  بے حس اگر بنادیگی
خوشیاں بھی اوجھل ہوجاینگی
یہ  بے چینی  یہی کہتی ہے
خوشی احساس کی زمین ہے
وہ  احساس جو سکوں کی سطح پر
کھلتا ہے کنول کی طرح
جب تو  بنتا ہے درد کی دوا
وہی پل ہے  تیری خوشی کی ابتدا

بدھ، 2 نومبر، 2011

قدرت کے کھیل



قدرت کے کھیل انوکھے ہیں
جب انسان اپنی فطرت سے بغاوت کرنے لگتا ہے
تب اسکی فطرت خود اسکے  روبرو ہوجاتی ہے
اور اسکی فطرت اس بغاوت کی زد سے نکل آتی ہے
کے یہ تو تیری فطرت نہیں
اپنی اصل سے ملاقات ہمیشہ سود مند ہوتی ہے
ظاہر کی گردش سے باطن کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتی
کے باطن میں بسیرا اسکا ہے
باطن پر پہرا اسکا ہے
فطرت کا  وطیرہ اسکا ہے